ذہنی صحت کی غلط فہمیاں: پاکستانیوں کو پریشانی، ڈپریشن اور دیگر مسائل کے بارے میں کیا جاننے کی ضرورت ہے؟
پاکستان میں، جہاں خاندان، روایات اور معاشرتی اقدار ہماری زندگیوں کا گہرا حصہ ہیں، وہاں ذہنی صحت کا موضوع اکثر ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے سماجی ڈھانچے میں، ذہنی بیماریوں کو اکثر کمزوری، ایمان کی کمی، یا محض ذاتی ناکامیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنہیں "صبر" اور "دعا" جیسی نجی کاوشوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمیاں ہمارے پیاروں کو مدد حاصل کرنے سے روکتی ہیں اور نتیجتاً ان کے ذہنی مسائل کو مزید پیچیدہ اور شدید بنا دیتی ہیں۔ آئیے آج ہم ان عام غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں اور سائنسی حقائق کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ ذہنی مسائل کے بارے میں پاکستانیوں کو کیا جاننے کی اشد ضرورت ہے
غلط فہمی نمبر 1: ذہنی بیماری صرف "پاگل پن" ہے یا جو لوگ کمزور ہیں انہیں ہوتی ہے۔
حقیقت: یہ شاید سب سے پرانی اور سب سے نقصان دہ غلط فہمی ہے جو ذہنی صحت کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ "پاگل پن" جیسی پرانی اور بدنام کن اصطلاحات نے ذہنی بیماریوں کے وسیع اور پیچیدہ سپیکٹرم کو بری طرح پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی بیماریاں کسی کو بھی متاثر کر سکتی ہیں، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور، کتنا ہی دیندار، یا کتنے ہی اعلیٰ سماجی رتبے کا حامل ہو۔ ڈپریشن، پریشانی، بائی پولر ڈس آرڈر، اور PTSD (صدمے کے بعد کا ذہنی دباؤ) جیسی بیماریاں عام ہیں اور یہ کسی بھی جسمانی بیماری کی طرح ہیں جن کے لیے مناسب تشخیص اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کسی فرد کی کمزوری کی علامت ہرگز نہیں بلکہ ایک ایسی طبی حالت ہے جسے سمجھنے، اس کا انتظام کرنے، اور مؤثر طریقے سے علاج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا دماغ بھی ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے، اور جس طرح ہمارے گردے، دل یا پھیپھڑے بیمار ہو سکتے ہیں، اسی طرح ہمارا دماغ بھی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ کمزوری کی نہیں بلکہ ایک انسانی حقیقت کی عکاسی ہے۔
---
غلط فہمی نمبر 2: ذہنی صحت کے مسائل صرف "بڑے لوگ" یا وہ لوگ جن کے پاس فارغ وقت ہوتا ہے ان کو ہوتے ہیں۔
حقیقت: ذہنی صحت کے مسائل ہر عمر، ہر طبقے، اور ہر پیشے کے افراد کو متاثر کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ ایک مصروف کاروباری ہوں، ایک طالب علم جس پر امتحانات کا دباؤ ہے، ایک گھریلو خاتون جو خاندانی ذمہ داریوں میں گھری ہوئی ہے، یا ایک دیہی مزدور جو معاشی تنگی کا شکار ہے، ذہنی دباؤ اور اس کے اثرات کسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی دباؤ، سماجی ناانصافی، قدرتی آفات (سیلاب، زلزلے)، اور خاندانی تنازعات جیسے عوامل عام ہیں، وہاں ذہنی صحت کا چیلنج اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
چھوٹے بچے اور نوجوان بھی ذہنی دباؤ، پریشانی، یا ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن اکثر ان کی علامات کو سمجھا نہیں جاتا یا انہیں "بچوں کی نادانی" یا "نوجوانی کی بغاوت" سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کو اکثر معاشرتی دباؤ، ازدواجی مسائل، اور صنفی امتیاز کی وجہ سے خاص ذہنی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی صحت کسی خاص طبقے یا فرصت کے حامل افراد تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک عالمگیر انسانی تجربہ ہے۔
غلط فہمی نمبر 3: ذہنی مسائل خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں یا صرف مضبوط ارادے سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
حقیقت: اگرچہ بعض اوقات چھوٹے موٹے ذہنی دباؤ یا روزمرہ کے مسائل بغیر کسی پیشہ ورانہ مداخلت کے ختم ہو سکتے ہیں، لیکن کلینیکل ڈپریشن، شدید پریشانی، یا صدمے کے بعد کے دباؤ جیسی سنجیدہ ذہنی بیماریاں عام طور پر خود بخود ٹھیک نہیں ہوتیں۔ یہ جسمانی بیماریوں کی طرح ہیں جن کے لیے پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح بخار یا زکام کی علامات بغیر دوا کے کم ہو سکتی ہیں، لیکن ذیابیطس یا دل کے مرض کے لیے ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ذہنی بیماریوں کے لیے بھی ماہر نفسیات یا سائیکائٹرسٹ کی مدد ضروری ہوتی ہے۔
ارادہ، عزم اور صبر یقیناً اہم ہیں اور صحت یابی کے سفر میں معاون ثابت ہوتے ہیں، لیکن وہ کسی ذہنی بیماری کا مکمل علاج نہیں کر سکتے۔ دماغی کیمیکل عدم توازن یا ماضی کے صدمات جیسے گہرے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک تربیت یافتہ ماہر کی رہنمائی ناگزیر ہے۔
---
غلط فہمی نمبر 4: ذہنی بیماریوں کے لیے صرف "دواؤں" کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ خطرناک یا نشہ آور ہوتی ہیں۔
حقیقت: ذہنی بیماریوں کا علاج صرف دواؤں سے نہیں ہوتا۔ حقیقت میں، بہت سی ذہنی بیماریوں کے لیے تھراپی (سائیکو تھراپی یا بات چیت کا علاج) دواؤں کے ساتھ یا اکیلے ہی زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ کاؤنسلنگ اور تھراپی میں، ایک تربیت یافتہ ماہر آپ کے ساتھ ایک محفوظ اور رازدارانہ ماحول میں کام کرتا ہے تاکہ آپ کو اپنے خیالات، جذبات، رویوں کو سمجھنے اور ان کا مثبت طریقے سے انتظام کرنے میں مدد ملے۔ یہ آپ کو مسائل سے نمٹنے کی نئی حکمت عملی سکھاتا ہے، ماضی کے صدمات کو حل کرنے میں مدد کرتا ہے، اور تعلقات کو بہتر بنانے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
دواؤں کا استعمال صرف مخصوص اور شدید حالات میں کیا جاتا ہے، اور یہ ہمیشہ کسی ماہر سائیکائٹرسٹ کے مشورے اور نگرانی کے بعد ہی لینی چاہئیں۔ جدید ادویات کو بہت تحقیق کے بعد بنایا گیا ہے اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ اور مؤثر ہیں۔ یہ اکثر عارضی طور پر استعمال ہوتی ہیں تاکہ علامات کو کم کیا جا سکے اور فرد کو تھراپی سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں مدد ملے۔ تمام ادویات نشہ آور نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان کے سنگین مضر اثرات ہوتے ہیں، اگر وہ صحیح طریقے سے استعمال کی جائیں۔
---
غلط فہمی نمبر 5: اگر آپ کسی تھراپسٹ کے پاس جائیں تو لوگ آپ کو "پاگل" سمجھیں گے۔
حقیقت: پاکستان میں یہ خوف بہت عام ہے کہ اگر کوئی تھراپی کے لیے جائے گا تو اسے معاشرے میں "پاگل" یا "عقلی طور پر بیمار" سمجھا جائے گا۔ یہ خوف افراد کو شرمندگی اور شرم کے احساس میں مبتلا کرتا ہے، اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ چپ چاپ تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ تھراپسٹ کے پاس جانا اپنی صحت کے لیے ایک ذمہ دارانہ اور سمجھدارانہ قدم ہے۔ یہ آپ کی کمزوری کی نہیں بلکہ آپ کی سمجھداری، خود آگاہی اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کی علامت ہے۔
اس خوف پر قابو پانے میں آن لائن تھراپی ایک انقلابی حل پیش کرتی ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے، آپ اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اور اپنے گھر کے آرام دہ اور نجی ماحول میں ہی ایک تربیت یافتہ ماہر سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ سماجی خوف نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو مدد تک رسائی ملتی ہے۔
---
غلط فہمی نمبر 6: ذہنی بیماری کا مطلب ہے کہ آپ ایمان میں کمزور ہیں۔
حقیقت: ذہنی بیماریاں ایک طبی حالت ہیں جن کا ایمان یا مذہبی لگاؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طرح جسمانی بیماریاں جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دل کا دورہ کسی کے ایمان کی کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا، اسی طرح ڈپریشن یا پریشانی بھی نہیں۔ ہمارا مذہب صبر، شکر اور اللہ پر توکل سکھاتا ہے، لیکن یہ ہمیں طبی مدد حاصل کرنے سے منع نہیں کرتا۔ بلکہ، اسلام میں صحت کی دیکھ بھال کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اسلام نے بیماریوں کے علاج کی تاکید فرمائی ہے۔
در حقیقت، بہت سے مذہبی لوگ بھی ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اور اکثر ان کا ایمان ہی انہیں مشکل وقت میں سہارا دیتا ہے اور انہیں آگے بڑھنے کی ہمت دیتا ہے۔ یہ کہنا کہ ذہنی بیماری ایمان کی کمی ہے، ایک ایسا نقصان دہ الزام ہے جو متاثرہ فرد کو شرمندہ کرتا ہے، اسے مجرم محسوس کراتا ہے، اور اسے اس طبی مدد سے محروم کر دیتا ہے جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے، اور شفا کے اسباب میں سے ایک اسباب اطباء (ڈاکٹروں) سے رجوع کرنا بھی ہے۔
آئیے، ذہنی صحت کے بارے میں صحیح سمجھ پیدا کریں
ذہنی صحت جسمانی صحت کی طرح ہی ناگزیر اور اہم ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے گہرے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ذہنی بیماری کمزوری کی علامت نہیں بلکہ ایک طبی چیلنج ہے جس پر مناسب مدد سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
مدد حاصل کرنا دراصل ایک طاقتور، مثبت، اور بہادری کا قدم ہے۔
خوشخبری یہ ہے کہ تھراپی، کاؤنسلنگ اور (ضرورت پڑنے پر) ادویات ذہنی صحت کے مسائل پر مؤثر طریقے سے قابو پانے میں بھرپور مدد کر سکتے ہیں۔
خاص طور پر، آن لائن تھراپی آپ کو رازداری اور آسانی سے مدد حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
مدد کہاں سے حاصل کریں؟
اگر آپ یا آپ کا کوئی جاننے والا پریشانی، ڈپریشن یا کسی اور ذہنی صحت کے مسئلے سے گزر رہا ہے تو مدد حاصل کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ ہچکچائیں۔ پاکستان میں ذہنی صحت کی سہولیات ابھی بھی ترقی پذیر ہیں، لیکن آن لائن تھراپی ایک روشن امید پیش کرتی ہے۔ یہ آپ کو اپنے گھر کے آرام اور رازداری میں، کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ سے ایک تربیت یافتہ ماہر سے جڑنے کا موقع فراہم کرتی ہے، بغیر کسی سماجی خوف یا سفری مشکلات کے۔
یاد رکھیں، آپ کی ذہنی صحت آپ کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اس کی حفاظت کریں، اسے سنجیدگی سے لیں، اور جب ضرورت ہو تو مدد مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں۔
Blog Tags